Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • حدیث ’’اَللّٰہم أجرنی من النار‘‘ کی تحقیق

    فرض نمازوں کے بعد جن دعاؤں کے پڑھنے کا تذکرہ احادیث میں ملتا ہے انہی میں سے ایک دعا ’’اللهم أجرني من النار‘‘ بھی ہے ، بعض حضرات فرض نماز کے بعد اس دعا کے پڑھنے کو مسنون بتلاتے ہیں حالانکہ اس موقع پر اس دعا کی مسنونیت کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے ،ذیل میں اس بارے میں ملنے والی روایات کی تحقیق پیش خدمت ہے:
    مذکورہ دعا درج ذیل دو صحابہ سے نقل کی جاتی ہے:
    اول: ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ۔ دوم: مسلم بن حارث رضی اللہ عنہ۔
    ذیل میں ان دونوں صحابہ سے نقل کی جانی والی روایات کا جائزہ پیش خدمت ہے:
    ۱۔ حدیث ابی امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ
    امام طبرانی رحمہ اللہ (المتوفی۳۶۰)نے کہا:
    حدثنا أحمد بن خالد بن مسرح الحراني ثنا معلل بن نفيل الحراني ثنا محمد بن محصن العكاشي ثنا الأوزاعي قال سمعت سليمان بن حبيب المحاربي يقول سمعت أبو أمامة الباهلي يقول قال: قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه و سلم:’’إذا أقيمت الصلاة فتحت أبواب السماء واستجيب الدعاء فإذا انصرف المنصرف من الصلاة ولم يقول اللهم أجرني من النار وأدخلني الجنة وزوجني من الحور العين قالت النار:يا ويح هذا أعجز أن يستجير اللّٰه من جهنم وقالت الجنة: يا ويح هذا أعجز أن يسأل اللّٰه الجنة وقالت الحور العين: يا ويح هذا أعجز أن يسأل اللّٰه أن يزوجه من الحور العين‘‘
    [المعجم الکبیر:۸؍۱۰۲]
    یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے ، سند میں محمد بن محصن العکاشی کذاب راوی ہے ۔
    امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ (المتوفی۲۷۷)نے کہا:
    ’’ کذاب‘‘ ،’’ یہ بہت بڑا جھوٹاہے‘‘[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم:۷؍۱۹۵]
    امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی۳۵۴)نے کہا:
    ’’ مُحَمَّد بن مُحصن الْأَسدي شيخ يضع الْحَدِيث عَلَي الثِّقَات ، مُحَمَّد بن مُحصن الْأَسدي‘‘
    ’’یہ شیخ ہے اور ثقات کے نام سے حدیث گھڑتا ہے‘‘
    [المجروحین لابن حبان:۲؍۲۷۷]
    امام دارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی۳۸۵)نے کہا:
    ’’ متروك يضع‘‘
    ’’یہ متروک اور حدیث گھڑنے والا ہے‘‘
    [سؤالات البرقانی للدارقطنی: ص:۶۲]
    امام بیہقی رحمہ اللہ (المتوفی۴۵۸)نے کہا:
    ’’ کَذَّابٌ یَضَعُ الْحَدِیثَ‘‘، ’’یہ بہت بڑا جھوٹا اور حدیث گھڑنے والا ہے‘‘
    [القرأۃ خلف الإمام للبیہقی: ص:۲۰۲]
    امام ابن القیسرانی رحمہ اللہ (المتوفی۵۰۷)نے کہا:
    ’’ مُحَمَّدٌ هذَا کَانَ یَضَعُ الْحَدِیثَ عَلَی الثِّقَاتِ ‘‘،’’ محمد یہ ثقات کے نام سے حدیث گھڑتا تھا‘‘ [تذکرۃ الحفاظ لابن القیسران :ص:۲۶]
    امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی۷۴۸)نے کہا:
    ’’ متہم ساقط ‘‘،’’ یہ متہم اور ساقط ہے‘‘[الکاشف للذہبی:۲؍۲۱۴]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی۸۵۲)نے کہا:
    ’’ کذبوہ‘‘،’’ محدثین نے اسے جھوٹا قرار دیا ہے‘‘[تقریب التہذیب لابن حجر: رقم:۶۲۶۸]
    امام ابن العراق الکنانی رحمہ اللہ (المتوفی۹۶۳)نے کہا:
    ’’ کذاب ‘‘،’’یہ بہت بڑا جھوٹ بولنے والا ہے‘‘[تنزیہ الشریعۃ لابن العراق:۱؍۱۱۳]
    امام طبرانی کے استاذ احمد بن خالد بن مسرح الحرانی بھی سخت ضعیف ہیں۔
    امام دارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی۳۸۵)نے کہا:
    ’’ ضعیف لیس بشیء ما رأیت أحدا أثنی علیه‘‘،’’ یہ ضعیف ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں ، میں نے کسی کو اس کی تعریف کرتے نہیں دیکھا‘‘[سؤالات حمزۃ للدارقطنی: ص:۱۴۸]
    ۲۔ حدیث مسلم بن حارث رضی اللہ عنہ۔
    امام ابوداؤد رحمہ اللہ (المتوفی۲۷۵)نے کہا:
    حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَبُو النَّضْرِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْفِلَسْطِينِيُّ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ حَسَّانَ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ مُسْلِمٍ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ عَنْ أَبِيهِ مُسْلِمِ بْنِ الْحَارِثِ التَّمِيمِيِّ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ أَسَرَّ إِلَيْهِ فَقَالَ: ’’إِذَا انْصَرَفْتَ مِنْ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ فَقُلْ: اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنَ النَّارِ سَبْعَ مَرَّاتٍ، فَإِنَّكَ إِذَا قُلْتَ ذَلِكَ ثُمَّ مِتَّ فِي لَيْلَتِكَ كُتِبَ لَكَ جِوَارٌ مِنْهَا، وَإِذَا صَلَّيْتَ الصُّبْحَ فَقُلْ كَذَلِكَ، فَإِنَّكَ إِنْ مِتَّ فِي يَوْمِكَ كُتِبَ لَكَ جِوَارٌ مِنْهَا أَخْبَرَنِي أَبُو سَعِيدٍ، عَنِ الْحَارِثِ، أَنَّهُ قَالَ: أَسَرَّهَا إِلَيْنَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَحْنُ نَخُصُّ بِهَا إِخْوَانَنَا‘‘
    [سنن أبی داؤد:۴؍۳۲۰، رقم:۵۰۷۹، واخرجہ غیرہ من طریق الحارث بہ]
    یہ روایت بھی ضعیف ہے ۔
    سند میں موجود الحارث بن مسلم مجہول ہے ۔
    امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی اس راوی کو مجہول قرار دیتے ہوئے کہا:
    ’’ مجهول لا یحدث عن أبیه إلا هو ‘‘
    ’’یہ مجہول ہے اور اپنے باپ سے صرف یہی روایت کرتا ہے ‘‘ [سؤالات البرقانی للدارقطنی: ص:۶۵]
    حارث بن مسلم کی توثیق کے دلائل کا جائزہ:
    حارث بن مسلم مجہول راوی ہے لیکن بعض اہل علم کا ماننا ہے کہ یہ ثقہ ہے چنانچہ حافظ زبیرعلی زئی صاحب لکھتے ہیں:
    حارث بن مسلم کے بارے میں اختلاف ہے، دارقطنی وغیرہ نے انہیں مجہول سمجھا اوربعض علماء نے انہیں صحابہ میں ذکر کیا ، مثلاً دیکھئے :[معرفۃ الصحابہ لابی نعیم الاصبھانی :ج:۲،ص:۷۹۴،ت:۶۵۹]
    جس کے صحابی ہونے میں اختلاف ہو اورجرح مفسر ثابت نہ ہو تو وہ حسن الحدیث راوی ہوتا ہے ۔دیکھئے : [التلخیص الحبیر :ج:۱،ص:۷۴،ح:۷۰]
    حارث بن مسلم مذکور کی توثیق ابن حبان ، ہیثمی [ مجمع الزوائد:۸؍۹۹] ابن حجر اورالمنذری (کما تقدم) نے کررکھی ہے لہٰذا وہ حسن الحدیث تھے والحمدللہ۔
    اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ شیخ البانی رحمہ اللہ کا اس روایت کو حارث بن مسلم کی جہالت کی وجہ سے ضعیف قراردینا درست نہیں بلکہ یہ روایت حسن لذاتہ ہے۔[فتاویٰ علمیہ: ج:۱،ص:۴۸۴]
    عرض ہے کہ شیخ البانی رحمہ اللہ کا موقف ہی راجح ہے اورحافظ موصوف نے جو توثیقات پیش کی ہیں ان کا جائزہ پیش خدمت ہے:
    مختلف فیہ صحابیت والے راوی کی توثیق:
    یہ کہنا کہ جس راوی کے صحابی ہونے میں اختلاف ہو وہ راوی کم از کم حسن الحدیث ضرور ہوتا ہے محل نظر ہے ، ہمیں اصول حدیث کی کسی کتاب میں یہ قاعدہ نہیں ملتابلکہ اس سلسلے میں صرف حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی درج ذیل عبارت کا حوالہ دیا گیا ہے :
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اسماء بنت سعید بن زید بن عمرو کے بارے میں فرماتے ہیں:
    ’’ وَأَمَّا حَالُهَا فَقَدْ ذُكِرَتْ فِي الصَّحَابَةِ، وَإِنْ لَمْ يَثْبُتْ لَهَا صُحْبَةٌ فَمِثْلُهَا لَا يُسْأَلُ عَنْ حَالِهَا ‘‘،
    ’’جہاں تک ان کی حالت کا تعلق ہے تو ان کا ذکر صحابہ میں ہوا ہے اور گرچہ ان کی صحبت ثابت نہ ہو پھر بھی ان جیسی شخصیت کی حالت کے بارے میں سوال نہیں کیا جاتا‘‘
    [تلخیص الحبیر :۱؍۷۴]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی اسی عبارت سے یہ اصول اخذ کیا جارہا ہے کہ جس راوی کے صحابی ہونے میں اختلاف ہو وہ ثقہ یا حسن الحدیث ہوتا ہے ۔
    عرض ہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مذکورہ بات بطور اصول نہیں کہی ہے بلکہ خاص اسماء بنت سعید بن زید بن عمرو کے بارے میں ایسا کہا ہے اور یہ بات قرائن کی بنیاد پر کہی ہے نہ کہ صرف اس بنیاد پر کہ ان کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے۔
    اس بات کی دلیل یہ ہے کہ خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی متعدد مقامات پر مختلف فیہ صحابیت والے ایسے رواۃ کو مجہول کہا ہے جن پر کوئی جرح نہیں ملتی ہے ،چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
    ۱۔ کبشہ بنت کعب بن مالک:
    امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی۳۵۴) نے انہیں ثقات میں ذکر کرتے ہوئے کہا:
    ’’ کبشۃ بنت کعب بن مالک کانت تحت أبی قتادۃ الأنصاری لہا صحبۃ ‘‘[الثقات لابن حبان:۳؍۳۵۷]
    یعنی ابن حبان کے نزیک یہ ثقہ بلکہ صحابی ہیں نیز ان پر کسی نے بھی کوئی جرح نہیں کی ہے پھر بھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اسی تلخیص ہی میں فرماتے ہیں:
    ’’واما كبشة فقيل إنها صحابية فإن ثبت فلا يضر الجهل بحالها واللّٰه أعلم‘‘
    [تلخیص الحبیر:۱؍۴۲]
    یعنی اگر کبشہ کی صحابیت ثابت نہ ہوئی تو وہ مجہول میں شمار ہوں گی ، بالفاظ دیگر ان کی صحابیت میں اختلاف ان کی توثیق کے لیے کافی نہیں ہے۔
    ۲۔ ابو عذرۃ:
    امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی۳۵۴) نے انہیں ثقات میں ذکر کرتے ہوئے کہا:
    ’’ أبو عذرة يروي عن عائشة روي عنه عبد اللّٰه بن شداد قيل له صحبة‘‘
    [الثقات لابن حبان: ۵؍ ۵۷۷]
    یعنی ابن حبان کے نزیک یہ ثقہ ہے اور ان کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے نیز ان پر کسی نے بھی کوئی جرح نہیں کی ہے پھر بھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں مجہول قراردیا ہے ،چنانچہ:
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی۸۵۲)نے کہا:
    ’’ أبو عذرة بضم أوله وسكون المعجمة له حديث فى الحمام وهو مجهول من الثانية ووهم من قال له صحبة ‘‘
    [تقریب التہذیب لابن حجر: رقم۸۲۵۰]
    ۳۔ جون بن قتادۃ بصری:
    امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی۳۵۴) نے انہیں ثقات میں ذکر کرتے ہوئے کہا:
    ’’ جون بن قتادۃ بصری یروی عن سلمۃ بن المحبق روی عنہ الحسن ‘‘[الثقات لابن حبان: ۴؍ ۱۱۹]
    یعنی ابن حبان کے نزیک یہ ثقہ ہیں اور ان کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے نیز ان پر کسی نے بھی کوئی جرح نہیں کی ہے پھر بھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں صرف مقبول قراردیا، چنانچہ:
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی۸۵۲)نے کہا:
    ’’ جَوْن ابن قتادة ابن الأعور ابن ساعدة التميمي ثم السعدي البصري لم تصح صحبته ولأبيه صحبة وهو مقبول من الثانية ‘‘
    [تقریب التہذیب لابن حجر: رقم۹۸۶]
    ۴۔ مالک بن نمیر :
    امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی۳۵۴) نے انہیں ثقات میں ذکر کرتے ہوئے کہا:
    ’’مالك بن نمير الأزدي الخزاعي بصري يروي عن أبيه وله صحبة روي عنه عصام بن قدامة ‘‘
    [الثقات لابن حبان:۵؍۳۸۶]
    یعنی ابن حبان کے نزیک یہ ثقہ بلکہ صحابی ہیں نیز ان پر کسی نے بھی کوئی جرح نہیں کی ہے پھر بھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں واضح طورپر مجہول قرار دیتے ہوئے کہا:
    ’’مالك بن نمير تابعي ذكره أبو بكر بن أبي على فى الصحابة وأخرج عن بن المقري عن أبي يعلي من أبي الربيع عن محمد بن عبد اللّٰه عن عصام بن قدامة عن مالك بن نمير قال كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه و سلم إذا جلس فى الصلاة وضع يده اليمني على فخذه الحديث قال أبو موسي رويناه من طريق إبراهيم بن منصور عن بن المقري بهذا السند فقال عن مالك بن نمير عن أبيه قلت الحديث المذكور معروف لنمير أخرجه أبو داؤد والنسائي من طريق مالك بن نمير عن أبيه فكأن قوله عن أبيه سقطت من الرواية فظن مالكا صحابيا وليس كذلك بل هو تابعي مجهول الحال‘‘
    [الإصابۃ لابن حجر:۶؍۳۲۳]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے علاوہ دیگر محدثین کا بھی یہی موقف ہے یعنی محدثین محض صحابیت میں اختلاف کو توثیق کے لیے کافی نہیں سمجھتے ، حتیٰ کہ رکب المصری کے صحابی ہونے کے بارے میں بعض نے اجماع کادعویٰ کیا اورحافظ ابن عبدالبررحمہ اللہ نے کہا:
    يقال: ’’إنه ليس بمشهور فى الصحابة، وقد أجمعوا علٰي ذكره فيهم ‘‘
    [الإستیعاب لابن عبد البر: ۱؍۱۵۰، الإصابۃ لابن حجر:۲؍۴۹۸]
    اس کے باوجود د بھی محدثین اسے مجہول مانتے ہیں ،چنانچہ:
    امام ابن مندہ رحمہ اللہ (المتوفی۳۹۵)نے کہا:
    ’’ مجہول لا تعرف لہ صحبۃ‘‘ [معرفۃ الصحابۃ لابن مندہ :ص:۶۵۸]
    امام ابن کثیر رحمہ اللہ (المتوفی۷۷۴)نے کہا:
    ’’ مجہول لا تعرف لہ صحبۃ‘‘ [جامع المسانید والسنن لابن کثیر:۴؍۲۹۸]
    الغرض یہ کہ کسی کے صحابی ہونے میں اختلاف اس کی توثیق کے لیے کافی نہیں ہے، مزید تفصیل کے لیے دیکھئے : [تحفۃ الأبرار فی تحقیق أثر مالک الدار: ص:۵۲ تا۸۵]یہ کتاب بڑی عمدہ ہے اورمختلف فیہ صحابیت والے راوی کی توثیق سے متعلق ۳۳صفحات پر بھرپور اور مفصل بحث کی گئی ہے، شائقین کو یہ کتاب اور یہ بحث ضرور پڑھنا چاہئے۔
    ابن حبان رحمہ اللہ کی توثیق:
    ابن حبان رحمہ اللہ کی منفرد توثیق بالاتفاق مردود ہوتی ہے اورزیر بحث راوی کی توثیق میں ان کا مؤیّد کوئی نہیں ہے کما سیأتی ۔
    امام ہیثمی رحمہ اللہ کی توثیق:
    امام طبرانی رحمہ اللہ (المتوفی۳۶۰)نے کہا:
    حدثنا الحسين بن إسحاق التستري ثنا على بن بحر ثنا الوليد بن مسلم ثنا عبد الرحمٰن بن حسان الكناني ثنا الحارث بن مسلم التميمي عن أبيه: ’’أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه و سلم كتب له كتابا بالوصاة إلى من بعده ممن ولاه اللّٰه الامر وختم عليه‘‘
    [المعجم الکبیر:۱۹؍۴۳۴]
    امام ہیثمی رحمہ اللہ اس روایت کو نقل کرکے فرماتے ہیں:
    وَعَنْ مُسْلِمِ بْنِ الْحَارِثِ التَّمِيمِيِّ: أَنَّ النَّبِيّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ لَهُ كِتَابًا بِالْوُصَاةِ إِلَي مَنْ بَعْدَهُ مِنْ وُلَاةِ الْأَمْرِ، وَخَتَمَ عَلَيْه۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُمَا ثِقَاتٌ
    [مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:۸؍۹۹]
    یعنی اس سند میں حارث بن مسلم بھی ہے اورامام ہیثمی رحمہ اللہ نے سند کے تمام رواۃ کو ثقہ کہا ہے ۔
    عرض ہے کہ یہاں پر امام ہیثمی رحمہ اللہ نے جس سند کے رجال کو ثقات کہا ہے اس میں گرچہ حارث بن مسلم بھی ہیں لیکن امام ہیثمی رحمہ اللہ کی یہ توثیق بے سود ہے کیونکہ خود امام ہیثمی رحمہ اللہ نے دوسرے مقام پرپوری صراحت کے ساتھ حارث بن مسلم کا نام لے کر اسے مجہول قراردیا ہے ، چنانچہ:
    امام طبرانی رحمہ اللہ (المتوفی۳۶۰)نے کہا:
    حدثنا موسي بن هارون ثنا الحكم بن موسٰي قالا ثنا صدقة بن خالد عن عبد الرحمٰن بن حسان ثنا الحارث بن مسلم التميمي عن أبيه قال:بعثنا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه و سلم فى سرية فلما هجمنا على القوم تقدمت أصحابي على فرسي فاستقبلنا النساء والصبيان يضجون فقلت لهم: تريدون أن تحرزوا أنفسكم ؟ قالوا: نعم قلت: قولوا أشهد أن لا إله إلا اللّٰه وأن محمدا عبده ورسوله فقالوها فجاء أصحابي فلاموني فقالوا أشرفنا على الغنيمة فمنعتنا ثم انصرفنا إلى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه و سلم فقال: ( ما تدرون ما صنع لقد كتب اللّٰه له من كل انسان كذا وكذا من الاجر) ثم أدناني منه فقال : ( إذا صليت صلاة الغداة فقل قبل أن تكلم أحدا اللهم أجرني من النار سبع مرات فإنك أن مت من يومك ذلك كتب اللّٰه لك بها جوارا من النار وإذا صليت المغرب فقل قبل أن تكلم أحد اللهم أجرني من النار سبع مرات فإنك ان مت من ليلتك كتب اللّٰه لك جوارا من النار )
    [المعجم الکبیر :۱۹؍۴۳۳]
    امام ہیثمی رحمہ اللہ اس روایت کو نقل کرکے فرماتے ہیں:
    وَعَنْ مُسْلِمٍ التَّمِيمِيِّ قَال: بَعَثَنَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ، فَلَمَّا هَجَمْنَا عَلَي الْقَوْمِ تَقَدَّمْتُ أَصْحَابِي عَلٰي فَرَسٍ، فَاسْتَقْبَلَنَا النِّسَائُ وَالصِّبْيَانُ يَضِجُّونَ، فَقُلْتُ لَهُمْ: تُرِيدُونَ أَنْ تُحْرِزُوا أَنْفُسَكُمْ؟ قَالُوا: نَعَمْ، فَقُلْتُ: قُولُوا: نَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَقَالُوهَا، فَجَائَ أَصْحَابِي فَلَامُونِي وَقَالُوا: أَشْرَفْنَا عَلَي الْغَنِيمَةِ فَمَنَعْتَنَا، ثُمَّ انْصَرَفْنَا إِلَي رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَتَدْرُونَ مَا صَنَعَ؟ لَقَدْ كَتَبَ اللّٰهُ لَهُ بِكُلِّ إِنْسَانٍ كَذَا وَكَذَا ، ثُمَّ أَدْنَانِي مِنْه۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ، وَفِي إِسْنَادِهِ الْحَارِثُ بْنُ مُسْلِمٍ، وَهُوَ مَجْهُولٌ.
    [مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:۱؍۲۶]
    یہاں پر خود امام ہیثمی رحمہ اللہ نے اسی راوی کا نام لے کر پوری صراحت کے ساتھ اسے مجہول قرار دیا ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دوسرے مقام پر ان سے سہوہوا اور موصوف ایک پوری سند کے تمام رواۃ کو ایک ساتھ ہی ثقہ کہتے وقت یہ دھیان نہیں دے سکے کہ ان میں ایک راوی ایسا بھی ہے جو خود ان کے نزدیک بھی مجہول ہے اورامام ہیثمی رحمہ اللہ سے اس طرح کا تساہل بہت ہوا ہے نیز اس بات میں بھی کسی کو اختلاف نہیں ہوناچاہیے کہ عمومی طور پر لگائے گئے حکم کے بالمقابل خصوصی طور پرلگائے گئے حکم کو ترجیح حاصل ہوگی۔
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی توثیق:
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی کسی بھی کتاب میں زیر بحث راوی کو صراحۃً ثقہ نہیں کہا، البتہ ’’نتائج الافکار‘‘ میں اس کی زیر تحقیق روایت کو حسن کہا ہے، اسی سے بعض اہل علم نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی نظر میں یہ راوی ثقہ ہیں کیونکہ حدیث کی تصحیح یا تحسین اس کی اسناد کے رجال کی توثیق ہوتی ہے ۔
    عرض ہے کہ یہاں پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تحسین سے توثیق کا نتیجہ نکالنا درست نہیں ہے کیونکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دوسرے مقام پر اس راوی کے مجہول ہونے کی بات کہی ہے اور صراحت کی ہے کہ اس کی کہیں توثیق نہیں ملتی چنانچہ:
    ’’محصل ذلك الاختلاف فى الصحابي هل هو الحارث بن مسلم أو مسلم بن الحارث وفي التابعي كذلك ولم أجد فى التابعي توثيقا إلا ما اقتضاه صنيع بن حبان حيث أخرج الحديث فى صحيحه وقد جزم الدار قطني بأنه مجهول والحديث الذى رواه أصله تفرد به ما رأيته إلا من روايته وتصحيح مثل هذا فى غاية البعد لكن بن حبان على عادته فى توثيق من لم يرو عنه إلا واحد إذا لم سكن فيما رواه ما ينكر‘‘
    [تہذیب التہذیب:۱۰؍۱۱۳]
    اس عبارت میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے نہ صرف یہ کہا کہ حارث بن مسلم کی کسی نے توثیق نہیں کی بلکہ ابن حبان رحمہ اللہ کے طرزعمل پر اعتراض بھی کیا ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی نظر میں یہ راوی بھی مجہول ہی ہے۔
    علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’وكذلك صنع الحافظ فى تهذيب التهذيب ، فلم يجعل للولد ترجمة خاصة ، ولكنه ذكره فى ترجمة أبيه ، ونقل عن الدارقطني أنه مجهول ، وذكر أنه لم يجد فيه توثيقا ، إلا ما اقتضاه صنيع ابن حبان ، حيث أخرج الحديث فى صحيحه ، وما رأيته إلا من روايته۔ قال الحافظ: وتصحيح مثل هذا فى غاية البعد ، لكن ابن حبان على عادته فى توثيق من لم يروعنه إلا واحد ، إذا لم يكن فيما رواه ما ينكر۔وهذا معناه أن الرجل مجهول‘‘
    [سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ وأثرہا السیء فی الأمۃ:۴؍۱۲۹]
    معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی نظر میں بھی یہ راوی مجہول ہی ہے ، لہٰذا مذکورہ تحسین سے اس راوی کی توثیق کا نتیجہ نکا لنا بھی غیردرست ہے ، کیونکہ یا توحافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تحسین ان کا تساہل ہے یا پھر تحسین اصطلاحی نہیں ہے اورغالباً اسی لیے’’ حدیث حسن‘‘ کہا نہ کہ’’ اسنادہ حسن ‘‘واللہ اعلم، اور بالفرض توثیق ان کا یہ موقف ان کے دوسرے موقف کے معارض ہے، لہٰذا غیر مسموع ہے۔
    امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی اس راوی کو مجہول قرار دیا ، چنانچہ:
    امام برقانی رحمہ اللہ (المتوفی۴۲۵)نے کہا:
    ’’قلت مسلم بن الحارث التميمي عن أبيه عن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قال مسلم مجهول لا يحدث عن أبيه إلا هو‘‘
    [سؤالات البرقانی للدارقطنی: ص:۶۵]
    اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی نظر میں بھی یہ راوی مجہول ہی ہے۔
    امام منذری رحمہ اللہ کی توثیق:
    امام منذری رحمہ اللہ نے نہ تو کہیں اس راوی کی توثیق کی ہے اور نہ ہی اس کی توثیق کی طرف کوئی اشارہ کیا ہے ، ملاحظہ ہو امام منذری رحمہ اللہ کی اصل عبارت :
    وَعَن الْحَارِث بن مُسلم التَّمِيمِي رَضِي اللّٰه عَنهُ قَالَ قَالَ لي النَّبِي صَلَّي اللّٰه عَلَيْهِ وَسلم إِذا صليت الصُّبْح فَقل قبل أَن تَتَكَلَّم اللَّهُمَّ أجرني من النَّار سبع مَرَّات فَإنَّك إِن مت من يَوْمك كتب اللّٰه لَك جوارا من النَّار وَإِذا صليت الْمغرب فَقل قبل أَن تَتَكَلَّم اللَّهُمَّ أجرني من النَّار سبع مَرَّات فَإنَّك إِن مت من ليلتك كتب اللّٰه لَك جوارا من النَّار رَوَاهُ النَّسَائِيّ وَهَذَا لَفظه وَأَبُو دَاوُد عَن الْحَارِث بن مُسلم عَن أَبِيه مُسلم بن الْحَارِث قَالَ الْحَافِظ وَهُوَ الصَّوَاب لِأَن الْحَارِث بن مُسلم تَابِعِيّ قَالَه أَبُو زرْعَة وَأَبُو حَاتِم الرَّازِيّ
    [الترغیب والترہیب للمنذری:۱؍۱۸۱]
    اس پوری عبارت میں کہیں نہیں ہے کہ امام منذری رحمہ اللہ نے حارث بن مسلم کی توثیق کی ہے یا اس کی توثیق کی طرف کوئی ادنیٰ اشارہ بھی کیا ہے ، ہاں سند میں ایک نام کی درستی کی ہے یعنی یہ بتلایا ہے کہ اس کا صحیح نام مسلم بن حارث ہے حارث نہیں کیونکہ حارث تو تابعی ہے ۔ لیکن نام کی اس تصحیح سے یہ کہاں لازم آیا کہ امام منذری اس تابعی کو ثقہ مان رہے ہیں؟
    الغرض یہ کہ امام منذری رحمہ اللہ نے بھی اس راوی کی توثیق نہیں کی ہے اورنہ ہی اس کی طرف کوئی اشارہ کیا ہے۔
    درج بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ حارث بن مسلم مجہول راوی ہے علامہ البانی رحمہ اللہ کی بھی یہی تحقیق ہے ، [الضعیفۃ :رقم:۱۶۲۴]
    خلاصۂ بحث:
    اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ فرض نمازوں کے بعد پڑھی جانے والی دعا (اللہم أجرنی من النار) اللہ کے نبی ﷺ سے صحیح سند سے ثابت نہیں ، اس کی ایک سند میں کذاب راوی اور ایک مزید ضعیف راوی ہے اور دوسری سند میں ایک مجہول راوی ہے ، علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو ضعیف قراردیا ہے ،دیکھئے:[سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ وأثرہا السیء فی الأمۃ:۴؍۱۲۷، رقم:۱۶۲۴]

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings